کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 17
نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ بعض مسلمان مسلح کفار سے جنگ کرنے کے حق میں نہ تھے۔ قرآن مجید میں ہے: (وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ ﴿٥﴾ يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ ﴿٦﴾) ’’اور یقیناً (اِس وقت) مومنوں کا ایک گروہ اس کو شاق سمجھ رہا تھا۔ وہ لوگ حق بات میں آپ سے اُلجھ رہے تھے۔ اس کے بعد کہ وہ ظاہر ہو چکی تھی (وہ اس حال میں مبتلا تھے) گویا وہ زبردستی موت کے منہ میں دھکیلے جا رہے ہیں، اور وہ (اسے اپنے سامنے) دیکھ رہے ہیں۔ (وَإِذْ يَعِدُكُمُ ا للّٰهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ ا للّٰهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ ﴿٧﴾ لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ﴿٨﴾) (6) ’’اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب اللہ نے تم سے وعدہ فرمایا کہ دو گروہوں میں سے ایک گروہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور) گروہ تمہارے ہاتھ لگے اور اللہ کا ارادہ تھا کہ حق کو اپنے کلمات سے ثابت کر دے اور ناحق کو باطل کر دے اگرچہ مجرم برا جانیں۔‘‘ مجلس مشاورت میں مسلمانوں کی اکثریت جنگ کے لئے برضا و رغبت تیار تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے مائل کیا۔ (7) تو حضرت ابوبکر نے (جنگ کی موافقت) میں تقریر کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی اعراض فرمایا۔ پھر حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے سخن ہماری طرف ہے) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سمندر میں