کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 167
رافع بن الحقیق کو اس کی جگہ پر سردار تسلیم کر لیا تھا۔ یہی وہ یہودی تھے جنہوں نے سنہ 5ھ میں عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف مجتمع کر کے مدینہ منورہ پر حملہ کرایا تھا۔ بنو قریظہ کو بدعہدی پر آمادہ کر کے نازل صورت حال پیدا کر دی۔ اب دوبارہ ساز باز کر کے ایک بڑی فوج کے ساتھ مدینہ پر یورش کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے خیبر پر اقدام ناگزیر ہو گیا۔ (2) خیبر کے یہودی برابر سرکشی میں مصروف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرانا، ایک لڑکی کا سر پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دینا، حضرت عبداللہ بن سہل کا قتل وغیرہ۔ شرارتیں انہوں نے کیں، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ جب رسولِ خدا نے روانگی کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں نہ شرکت کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: (سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللّٰه ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ ا للّٰهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٥﴾قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ ا للّٰهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٦﴾) (3) ’’جب تم غنیمتیں لینے چلو گے تو پیچھے رہ جانے والے کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے پیچھے آنے دو، وہ ارادہ کرتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں، آپ فرما دیجئے ہرگز تم ہمارے پیچھے نہیں آ سکتے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے فرما دیا ہے۔ پھر عنقریب وہ کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (ایسا نہیں) بلکہ وہ سمجھ نہیں رکھتے مگر بہت تھوڑی۔ ان پیچھے رہنے والے دیہاتیوں سے فرما دیجئے تم ایک ایسی