کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 164
سے نہیں کی گئی تھی۔ یہ صلح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے نہیں کی بلکہ اللہ کے حکم سے کی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا میں اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتا پھر بعد میں سورۃ فتح میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تائید فرما دی۔ عروہ نے یہ کہہ کر کہ ’’کیا تم نے اس سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا استحصال کیا ہو‘‘ قومیت کے نظریہ کو پیدا کرنا چاہا مگر مسلمانوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ وہ لڑنے کے لئے بے چین تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل مسلم قوم کی طرف سے عرب کافر قوم کے خلاف لڑتے رہے۔ قومیت کا نعرہ کفر کی ایجاد ہے۔ ہمیشہ ملحد قوموں نے انبیاء مرسلین اور مصلحین کو قوم کا واسطہ اس امید پر دیا کہ شاید وہ ایمان اور اسلام کی شاہراہ سے ہٹ کر ہماری پر تاریک وادیوں کا رخ کر لیں۔ اللہ والے یوں کیسے کر سکتے ہیں انہوں نے ان کے خلاف پوری طرح جہاد کیا۔