کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 163
’’اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی تم سے چھوٹ کر کافروں کی طرف چلی جائے پھر (کفار سے) تم غنیمت حاصل کر لو تو (غنیمت میں سے) دے دو ان (مسلمانوں) کو جن کی بیویاں (کافروں کی طرف) چلی گئیں مثل اس کی جو انہوں نے خرچ کیا اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لا چکے ہو۔‘‘ اس آیت کے نزول تک کافروں کی جو عورت مسلمان ہو کر آتی تھی۔ اس کا مہر واپس کر دیا کرتے تھے۔ اب انہوں نے ایسا کرنا بند کر دیا۔ اب وہ اس رقم میں سے اس مسلمان کو دے دیتے تھے جس کی کافر بیوی کافروں کے پاس چلی گئی ہو۔ (18) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر دب کر صلح کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں بڑی مصلحت تھی۔ یہ صلح ہی دراصل فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ تبلیغ کے لئے میدان صاف ہو گیا۔ مکہ کے مظلوم مسلمان لاعلمی میں قتل ہونے سے بچ گئے۔ اسی اثناء میں بہت سے کافر مسلمان ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء ہی میں مشورہ لیتے وقت فرمایا تھا کہ ’’تمہاری رائے ہے کہ میں ان کافروں کو غارت کر دوں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے لڑنے اور مرنے پر بیعت لے کر جنگ کا ارادہ فرما لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدیل اور عروہ سے بھی جنگ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرح بھی ان سے خوف زدہ نہیں تھے، اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے بھی یہی واضح ہوتا ہے: (وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ) (19) ’’اور اگر کافر تم سے لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے۔‘‘ (أَن تَطَئُوهُمْ) (20) ’’تم ان کو پامال کر دیتے۔‘‘ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دب کر صلح کسی کمزوری یا بزدلی کی وجہ