کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 162
اتنے میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ انہوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! بےشک اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری سے بری کر دیا ہے۔ آپ تو مجھے کفار کی طرف واپس کر چکے ہیں اب تو اللہ نے مجھے ان سے نجات دی ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو لڑائی کی آگ ہے۔ اگر اس کا کوئی مددگار ہوتا (تو یہ آگ بھڑک اٹھتی) حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنی تو سمجھ گئے کہ آپ پھر انہیں واپس کر دیں گے، لہٰذا وہ وہاں سے چل دئیے۔ سمندر کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں مقیم ہو گئے۔ اسی اثناء میں حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ بھی چھوٹ کر آئے اور حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہنے لگے۔ پھر قریش میں سے جو شخص بھی مسلمان ہو کر آتا۔ وہ حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس ہی آ کر ٹھہر جاتا۔ یہاں تک کہ ان کی اچھی خاصی جماعت ہو گئی۔ وہ جب سنتے کہ قریش کا کوئی قافلہ شام کی طرف سے آ رہا ہے تو اس کی گھات میں رہتے۔ آدمیوں کو قتل کر دیتے اور مال لے لیتے۔ قریش (بہت پریشان ہوئے) انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دلایا اور درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو ان باتوں سے منع کر دیں اب جو شخص مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے وہ بے خوف ہو کر آ سکتا ہے اسے واپس کرنے کی شرط ختم کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر کو لوٹ مار کرنے سے منع کروا دیا۔ اللہ نے فیصلہ کیا تھا جو کچھ مسلمانوں نے اپنی بیویوں پر خرچ کیا ہو۔ جب وہ کافروں کے پاس جائیں تو کافر اس خرچ کو مسلمانوں کے حوالہ کر دیں، کافروں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَإِن فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُم مِّثْلَ مَا أَنفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا ا للّٰهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴿١١﴾) (17)