کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 161
چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ پھر آئی اور بیعت کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا آیتوں کی تلاوت کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشرک عورتوں کو جو ان کے نکاح میں تھیں طلاق دے دی۔ ایک قریبہ بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا اور دوسری بنت جزول خزاعی تھی۔ قریبہ رضی اللہ عنہا سے حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور دوسری کے ساتھ ابو جہم صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا۔ ان ہی ایام میں حضرت ابو بصیر جو قریشی النسل تھے، مسلمان ہو گئے۔ مسلمان ہو کر وہ مدینہ پہنچے۔ اخنس بن شریق نے ان کی واپسی کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا۔ ادھر کفار مکہ نے ان کے تعاقب میں دو آدمی روانہ کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا کہ جو عہد آپ نے کیا ہے اس کی پاسداری کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو ان دونوں کے حوالہ کر دیا۔ وہ دونوں حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو لے چلے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو اپنی سواری سے اتر کر کھجوریں کھانے لگے۔ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک شخص سے کہا: ’’اللہ کی قسم میں تمہاری تلوار کو بہت عمدہ سمجھتا ہوں‘‘ اس شخص نے تلوار نیام سے نکالی اور کہا: ’’اللہ کی قسم یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ آزمایا ہے‘‘ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ذرا مجھے دکھاؤ، میں بھی تو دیکھوں کہ یہ کیسی ہے۔ اس نے رہ تلوار حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو دے دی۔ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے وہ تلوار لے کر اس شخص پر وار کیا یہاں تک کہ اسے ٹھنڈا کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگ گیا اور سیدھا مدینہ منورہ پہنچ کر دوڑتا ہوا مسجد میں گھس گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: ’’یہ خوف زدہ ہے‘‘ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور اگر میں نہ بھاگتا تو میں بھی قتل کر دیا جاتا۔