کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 153
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لوگوں کی طرف نظر کی، ان کو معاف کر دیا اور فرمایا ان کو چھوڑ دو (بدعہدی کے) گناہ کی ابتداء بھی ان ہی کی طرف سے ہوئی اور تکرار بھی، اسی سلسلہ میں اللہ نے فرمایا: (وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ ا للّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا ﴿٢٤﴾) (8) ’’(اے مومنو!) اور وہی ہے جس نے روک دیا ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ کے بیچ میں اس کے بعد کہ تمہیں ان پر کامیاب فرما دیا اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو خوب دیکھتا ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس ہوئے۔ راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل پر اترے جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اور بنی لحیان قبیلہ کے مشرکین کے درمیان بس ایک پہاڑ حائل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کی طرف سے خطرہ محسوس کیا اس شخص کے لئے دعائے مغفرت فرمائی جو اس پہاڑ پر چڑھ کر اسلامی فوج کا پہرہ دے۔ یہ دعا سن کر حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے رات بھر پہرہ دیا اور تین مرتبہ وہ پہاڑ پر بھی چڑھے۔ یہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے۔ اثنائے سفر میں ایک رات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات دریافت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’اے عمر! تیری ماں تجھ کو روئے تو نے متواتر تین دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ نے ایک بھی جواب نہیں دیا۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ کو تیز کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم آگے بڑھ گئے، وہ ڈر رہے تھے کہ کہیں ان کے معاملہ میں قرآن نازل نہ ہو جائے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے سنا کہ ایک آدمی انہیں آواز دے رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں ڈر گیا کہ ضرور میرے معاملہ میں قرآن