کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 152
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا تھا۔ کھریرا کرتا تھا اور ان کی بھی خدمت کرتا تھا اور ان کے ساتھ ہی کھانا کھاتا تھا۔ میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر اللہ ہی کے لئے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آیا تھا۔ جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ایک دوسرے سے ملنے لگے تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے صاف کر کے اس کی جڑ میں لیٹ گیا۔ اتنے میں مشرکین مکہ میں سے چار آدمی آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے لگے۔ مجھے ان پر غصہ آ گیا۔ میں وہاں سے دوسرے درخت کے پاس آ گیا۔ انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ گئے۔ وہ اس حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے آواز آئی کہ مہاجرین زینم قتل کر دئیے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونت لی اور ان چار آدمیوں پر حملہ کر دیا۔ وہ سو رہے تھے میں نے ان کے ہتھیار لئے اور اکٹھے کر کے اپنے ہاتھ میں پکڑ لئے۔ اتنے میں وہ جاگے تو میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت عطا فرمائی ہے تم میں سے اگر ایک نے اپنا سر اٹھایا تو میں اس کا وہ حصہ اڑا دوں گا جس میں ان کی دونوں آنکھیں ہیں۔ پھر میں ان کو کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے آیا۔ قبیلہ عبلات کا ایک آدمی جس کا نام مکرز تھا، ستر مشرکین کے ہمراہ مسلح ہو کر کوہ تنعیم میں مسلمانوں کی گھات میں بیٹھ گیا۔ ان لوگوں کا یہ ارادہ تھا کہ ناگہانی طور پر مسلمانوں پر حملہ کر دیا جائے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے چچا حضرت عامر رضی اللہ عنے (نے ان پر غلبہ حاصل کیا اور) انہیں گھسیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔