کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 150
کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعد میں سوال و جواب کرنے پر بہت پچھتائے اور اس کے کفارہ میں بہت سی عبادتیں کیں) حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ٹال دینے کا اختیار ہوتا تو میں اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ٹال دیتا۔ لیکن حقیقی ایمان کے بعد ایک مومن کو کوئی اختیار باقی نہیں رہتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی خلاف ورزی کرے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے (اور جب یہ ہمارا ایمان ہے تو ہم اپنی کم علمی کے باوجود کیسے آپ کے حکم کو ٹال سکتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تسلی اور غم غلط کرنے کے لئے فرمایا: ’’تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہو‘‘ جب صلح نامہ کی تحریر مکمل ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اٹھو قربانی کرو اور سر منڈاؤ۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ فرمائے (لیکن اس امید میں کہ شاید کوئی دوسرا حکم مل جائے اور وہ ان کی تسلی کا باعث ہو) کوئی اٹھا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ کے پاس چلے گئے اور ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے نبی! کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی چاہتے ہیں، اگر ایسا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جائیے۔ ان میں سے کسی سے بات نہ کیجئے یہاں تک کہ آپ اپنے جانوروں کو ذبح کر دیجئے پھر سر منڈنے والے کو بلائیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مونڈے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے ان میں سے کسی سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانوروں کو ذبح کیا پھر سر منڈنے والے کو بلایا۔ اس نے آپ کا سر مونڈ دیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو (اب انہیں حکم کی تبدیلی کی کوئی امید باقی نہ رہی) اٹھے اور قربانی کی پھر ان میں سے ہر ایک دوسرے کا سر