کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 15
غزوہ بدر
قریش کے تجارتی قافلے مدینے سے ہو کر گزرتے تھے۔ کفار کی اقتصادی اور جنگی ناکہ بندی کرنے کے لئے ضروری تھا کہ تجارتی قافلوں کی آمدورفت میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ اسی زمانے میں کفار قریش کا ایک قافلہ مکہ مکرمہ واپس آ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلے پر چھاپہ مارنے کا ارادہ فرمایا۔ (1)
اس باب میں قافلے کو حملے کا ہدف تسلیم کرنے سے گریزاں ہونا سراسر تکلف ہے؟ قریش اور مسلمانوں کے درمیان حالت جنگ قائم تھی اور حالت جنگ میں دشمن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا مستوجب طعن نہیں ہو سکتا۔ جن بزرگوں نے اس باب میں تکلفات فرمائے ہیں، میں سمجھتا ہوں انہوں نے حقیقی صورت حال پیش نظر نہیں رکھی اور صرف اس خیال سے متاثر ہو گئے کہ کہیں مسلمانوں پر غارت گری کا الزام عائد نہ ہو جائے لیکن پیش بندی کے طور پر دشمن کو نقصان پہنچانا اور اسے جنگ کے معاملے میں بے دست و پا بنا دینا ہر اعتبار سے درست اور جائز ہے اور یہ سب کے نزدیک تدابیر جنگ میں ایک موثر تدبیر ہے ’’ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ‘‘ کا مطلب بھی یہی ہے۔ (2)
خدا جانے اس بدیہی حقیقت سے اعراض کیوں مناسب سمجھا گیا؟ یہ غارت گری نہ تھی ایک جانی دشمن کے لبریز عناد منصوبوں کو ناکام و نامراد بنانے کی کوشش تھی۔ کیا یہ حقیقت نہ تھی کہ قریش مکہ ان املاک پر قابض ہو گئے تھے