کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 148
باہم اس سلسلہ میں گفتگو کرنے لگے۔ انہوں نے اس شرط کو مسترد کر دیا لیکن سہیل نے اس پر اصرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور کر لیا۔ مجاہدین رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’کیا یہ شرط بھی ہم مان لیں گے اور تحریر کر دیں گے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس لئے کہ جو تمہارے پاس سے جائے اللہ اسے اور دور کر دے۔ اور جو ان کی طرف سے ہمارے پاس آئے گا تو اللہ عنقریب اس کے لئے کشادگی اور نکلنے کی سبیل مہیا کر دے گا۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں حضرت ابو جندل بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں کو کھڑکھڑاتے ہوئے مکہ کے نشیب سے وہاں آ پہنچے انہوں نے اپنے آپ کو صحابہ کے درمیان ڈال دیا۔ سہیل نے کہا یہی پہلی شرط ہے جس پر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرتے ہیں کہ آپ ابو جندل رضی اللہ عنہ کو واپس میرے حوالہ کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی ہم نے تحریر ختم نہیں کی۔‘‘ سہیل نے کہا: اللہ کی قسم! تو ہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات پر صلح نہیں کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ایک آدمی کو اجازت دے دو۔ سہیل نے کہا: میں ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں اس کو اجازت دے دو‘‘ سہیل نے انکار کیا کہ میں اجازت نہیں دوں گا۔ مکرز نے کہا: ’’میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دیتا ہوں‘‘ (سہیل انکار ہی کرتا رہا تو) حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے مومنو! کیا میں مشرکوں کی طرف واپس کر دیا جاؤں گا حالانکہ میں مسلمان ہو کر آیا ہوں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں نے کیا کیا مصیبتیں اٹھائی ہیں۔‘‘ اتنے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: کیا ہم حق پر دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ حضرت عمر نے عرض کی: ’’کیا ہمارے مقتول