کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 147
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہی لکھوائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باسمک اللہ ہی لکھ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی‘‘ سہیل نے کہا: ’’اللہ کی قسم اگر ہم جانتے کہ اللہ کے رسول آپ ہیں تو آپ کو کعبہ سے نہ روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ بلکہ آپ کی پیروی کرتے۔ لہٰذا آپ یہ لکھوائیں محمد بن عبداللہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بےشک اللہ کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں، اگر تم میری تکذیب کرتے ہو تو محمد بن عبداللہ ہی لکھوا دو۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے کہا: ’’رسول اللہ کو مٹا کر ابن عبداللہ لکھ دو، حضرت علی نے عرض کی: اللہ کی قسم ! یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کاغذ لے لیا اور فرمایا: ’’مجھے بتاؤ (کہ وہ کہاں لکھا ہے) حضرت علی نے بتا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹا دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلح اس بات پر ہو رہی ہے کہ تم ہمارے اور کعبہ کے درمیان راہ صاف کر دو، سہیل نے کہا: اللہ کی قسم اس سال نہیں کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہم مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ ہاں آئندہ سال یہ بات ہو جائے گی مگر اس شرط پر کہ آپ مکہ میں ہتھیار لے کر نہیں آئیں گے سوائے تلواروں کے اور وہ بھی نیام میں ہوں گی اور تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے یا جتنا ہم چاہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور کر لیا اور اس کے مطابق صلح نامہ لکھوا دیا۔ پھر سہیل نے کہا یہ لکھوائیے کہ اگر ہماری طرف سے کوئی مرد تمہاری طرف چلا جائے تو تم اس کو ہماری طرف واپس کر دو گے۔ خواہ وہ تمہارے دین پر کیوں نہ ہو مسلم کے الفاظ (اور جو تمہارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہ کریں گے) صحابہ کرام نے کہا: سبحان اللہ وہ کیسے مشرکوں کے پاس واپس کر دیا جائے گا۔حالانکہ وہ مسلمان ہو کر آیا ہے۔ صحابہ کرام پر یہ شرط بہت گراں گزری اور وہ