کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 146
پست رکھتے ہیں۔ اور ادب کے باعث ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے اور بےشک انہوں نے تمہارے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے لہٰذا تم اس کی مان لو۔ یہ سن کر بنو کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا: ’’مجھے اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں‘‘ لوگوں نے کہا: ’’اچھا تم جاؤ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے پاس آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا یہ فلاں شخص ہے اور اس قوم میں سے ہے جو قربانی کے جانوروں کو بہت تعظیم کرتے ہیں، لہٰذا تم قربانی کے جانور اس کے سامنے لاؤ‘‘ لوگ قربانی کے جانور لے کر چلے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا: سبحان اللہ، ان لوگوں کو کعبہ سے روکنا مناسب نہیں پھر وہ اپنی قوم کے پاس چلا آیا۔ اور ان سے کہا: ’’میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا کہ انہیں قلادے پہنا دئیے گئے ہیں اور ان کو خون آلود کیا گیا ہے۔ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں کعبہ سے روکا جائے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا جس کا نام مکرز بن حفص تھا، اس نے کہا اب مجھے اجازت دو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں۔ لوگوں نے کہا: ’’اچھا جاؤ‘‘ جب وہ مسلمانوں کے پاس پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ مکرز ہے اور یہ ایک بدکردار آدمی ہے‘‘ وہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا۔ اسی حال میں کہ وہ مصروف گفتگو تھا۔ سہیل بن عمرو آیا۔ جب سہیل آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب تمہارا کام سہل کر دیا گیا۔‘‘ سہیل نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے درمیان اور ہمارے درمیان صلح نامہ لکھ دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا: لکھو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سہیل نے کہا: اللہ کی قسم ہم رحمٰن کو نہیں جانتے کہ کون ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر لکھوائیے باسمک اللہ، جیسا کہ آپ پہلے لکھا کرتے تھے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم تو