کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 145
اٹھایا اور پوچھا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’مغیرہ بن شعبہ‘‘۔ عروہ نے کہا: اے بے وفا! تو سمجھتا ہے کہ میں تیری بے وفائی کے انتقام کی فکر میں نہیں ہوں۔ ایام جاہلیت میں حضرت مغیرہ بن شعبہ کچھ لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ان لوگوں کو قتل کر ڈالا اور ان کا مال لے لیا۔ اس کے بعد وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہارا اسلام لانا قبول کرتا ہوں لیکن مال کے معاملہ میں مجھے معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے‘‘ عروہ نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا اور اس لوٹ مار کو بیوفائی کہا، اس کے بعد عروہ گوشہ چشم سے صحابہ کرام کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوکتے ہیں تو صحابہ فوراً اپنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں اور آپ کا تھوک کسی نہ کسی کے ہاتھ پر پڑتا ہے اور وہ اسے چہرہ پر مل لیتا ہے۔ اور جب آپ انہیں حکم دیتے ہیں تو وہ فوراً اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑتے ہیں۔ جب آپ بات کرتے ہیں تو وہ اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں اور بغرض تعظیم بے محابا آپ کی طرف نہیں دیکھتے۔ یہ منظر دیکھ کر عروہ واپس چلا گیا اور قریش سے کہا: ’’اے لوگو! اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں، قیصر، کسریٰ اور نجاشی کا دربار دیکھا ہے مگر اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے مصاحب اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں جس قدر محمد کے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا تھوک ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر پڑتا ہے اور وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ اور جب وہ اپنے اصحاب کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ فوراً حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ وضو کے پانی کے لئے جھگڑتے ہیں اور جب وہ بات کرتے ہیں تو سب اپنی آوازیں