کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 144
نے میرا کہنا نہ مانا تو میں نے اپنے اقرباء اور اولاد کو اور جس جس نے میرا کہنا مانا تمہاری مدد کے لئے آیا‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہاں تم سچ کہتے ہو‘‘ عروہ نے کہا: ’’اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اسے منظور کر لو اور مجھے اجازت دو کہ میں اس کے پاس جاؤں، لوگوں نے کہا اچھا تم اس کے پاس جاؤ۔ الغرض عروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ سے وہی باتیں کیں جو بدیل سے کی تھیں۔ عروہ نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتاؤ اگر تم اپنی قوم کی جڑ کاٹ ڈالو گے تو تمہیں کیا ملے گا؟ کیا تم نے اس سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا استیصال کیا ہو اور اگر کوئی دوسری بات ظہور میں آئی۔ (یعنی مغلوب ہو گئے) تو پھر کیا ہو گا اور بظاہر ایسا ہی ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ میں تمہارے ساتھ ایسے مختلف قسم کے آدمی دیکھ رہا ہوں کہ وہ بھاگ جانے کے زیادہ سزاوار ہیں اور وہ تمہیں تن تنہا چھوڑ دیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے کہا جو تو چاہے بکتا پھر، کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟ عروہ نے کہا: یہ کون ہے۔ لوگوں نے کہا: ابوبکر ہیں۔ عروہ نے کہا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر تمہارا ایک احسان مجھ پر نہ ہوتا۔ جس کا بدلہ میں ابھی تک ادا نہیں کر سکا تو میں ضرور تمہیں جواب دیتا۔ عروہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا۔ وہ جب بات کرتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو اپنا ہاتھ لگاتا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس کھڑے ہوئے تھے، ان کے پاس تلوار تھی اور سر پر خود تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ عروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے تو اپنی تلوار کا قبضہ اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا: ’’اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک سے الگ رکھ‘‘ عروہ نے اپنا سر