کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 143
چھوڑا ہے کہ وہ حدیبیہ کے عمیق چشموں پر فروکش ہیں۔ ان کے ہمراہ دودھ دینے والی اونٹنیاں ہیں، وہ آپ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، بلکہ عمرہ کرنے آئے ہیں۔ قریش کو لڑائی نے کمزور کر دیا اور ان کو نقصان پہنچایا۔ ایسی حالت میں اگر وہ چاہیں تو میں ان کے لئے صلح کی کوئی مدت مقرر کر دوں گا، اس مدت میں پھر وہ میرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان مداخلت نہ کریں اگر صلح کی مدت میں، میں غالب آ جاؤں تو اگر وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہو جائیں جس میں اور لوگ داخل ہوئے ہیں۔ اور اگر وہ اس دین میں داخل نہ ہوں تو پھر اس کی مدت تک آرام سے بیٹھیں۔ اگر وہ اس بات کو منظور نہ کریں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اپنی اس حالت میں ان سے لڑوں گا۔ یہاں تک کہ میں قتل کر دیا جاؤں اور ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ اپنے دین کو جاری کر کے رہے گا۔ بدیل نے کہا جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قریش سے جا کر کہوں گا۔ یہ کہہ کر بدیل قریش کے پاس پہنچا اور کہا ہم تمہارے پاس اس شخص کی طرف سے آ رہے ہیں۔ جس کو تم روکنا چاہتے ہو۔ ہم نے اس سے کچھ باتیں سنی ہیں، اگر تم چاہو تو وہ باتیں ہم تم سے بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے بیوقوف لوگوں نے کہا کہ ہمیں ان باتوں کی ضرورت نہیں ان میں جو عقلمند تھے انہوں نے کہا جو کچھ تم نے سنا بیان کرو۔ بدیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں انہیں سنائیں۔ عروہ بن مسعود نے جب یہ باتیں سنیں تو کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: ’’اے لوگو! کیا میں تمہارا باپ نہیں ہوں؟ لوگوں نے کہا: ’’ہاں‘‘ عروہ نے کہا: کیا تم میرے بیٹوں کی مثل نہیں ہو؟ لوگوں نے کہا: ’’ہاں‘‘ کیا تم کو مجھ سے کسی قسم کی بدظنی ہے؟ لوگوں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ عروہ نے کہا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لئے بلایا تھا، لیکن جب انہوں