کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 140
کا لحاظ (کرتے ہوئے مجھ سے کسی حرام چیز کا مطالبہ نہیں) کریں گے تو میں ان کی اس بات کو منظور کر لوں گا‘‘ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا۔ اونٹنی نے ایک جست لگائی (اور کھڑی ہو گئی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پہاڑی سے) ایک طرف ہٹ کر آگے روانہ ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کنویں کے پاس پہنچے تو اتر پڑے اور وہاں قیام فرمایا، صحابہ کرام بھی وہاں پہنچ گئے اور اس کنویں میں سے تھوڑا تھوڑا پانی لیتے رہے۔ تھوڑی دیر میں اسے بالکل صاف کر دیا اور ایک قطرہ پانی بھی اس میں نہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پانی ختم ہونے کی خبر ہوئی تو آپ تشریف لائے اور کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ نے وضو کے لئے پانی منگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں میں کلی فرمائی اور دعا فرمائی۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اسے کچھ دیر کے لئے چھوڑ دو‘‘ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کنویں میں اتنا پانی ہو گیا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے جانوروں نے سیر ہو کر پیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام آگے روانہ ہوئے اور تھوڑی دور جا کر حدیبیہ ہی کے علاقہ میں ایک گڑھے کے پاس ٹھہر گئے۔ گڑھے میں پانی بہت کم تھا، گرمی کا زمانہ تھا۔ لوگوں نے تھوڑی دیر میں اسے صاف کر دیا۔ پھر آپ سے پیاس کی شکایت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور فرمایا: اسے وہاں گاڑ دو، تیر کے گاڑتے ہی پانی جوش مارنے لگا۔ لوگوں نے پانی پیا اور سب سیراب ہو گئے۔ حضرت کعب بن عجرہ کے سر میں جوئیں پڑ گئیں۔ حدیبیہ پہنچتے پہنچتے جوئیں کثرت سے ہو گئیں کہ سر سے جھڑنے لگیں ان کی اس تکلیف کو رفع کرنے کے لئے اللہ نے فرمایا: (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ) (6)