کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 139
علیہ وسلم نے فرمایا: جو بچا ہوا ہے وہ بھی کھا لو اس کا کھانا حلال ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے وہ دست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کھانا تو وہ ہے جو تمہیں اللہ نے کھلایا ہے‘‘۔ (4) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے ابوایا ودان کے مقام پر حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جدیتاً ایک جنگلی گدھا پیش کیا۔ آپ نے واپس کر دیا پھر جب آپ نے اس کے چہرہ پر ملال کے آثار دیکھے تو فرمایا ہم نے کسی اور وجہ سے واپس نہیں کیا بلکہ صرف اس وجہ سے واپس کیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے۔ اثنائے راہ میں آپ نے فرمایا: ’’خالد بن ولید (مقام عمیم) میں قریش کے سواروں کے ساتھ مقدمۃ الجیش میں ہیں لہٰذا تم داہنی جانب چلو‘‘ (صحابہ رضی اللہ عنہم نے حکم کی تعمیل کی) حضرت خالد کو (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) مسلمانوں کے آنے کی خبر نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ جب لشکر اسلام کا غبار ان کے پاس پہنچا تو وہ سمجھے کہ مسلمان آ گئے۔ وہ فوراً قریش کو خبر دینے کے لئے روانہ ہوئے۔ اسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر چلتے رہے، یہاں تک کہ آپ جب اس پہاڑی پر پہنچے جس کے اوپر سے ہو کر مکہ میں اترتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جس کا نام قصویٰ تھا۔ بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا: حل حل، لیکن اونٹنی نے جنبش نہیں کی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: قصویٰ بیٹھ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قصویٰ نہیں بیٹھی نہ اس کی یہ عادت ہے بلکہ اسے اس ذات نے روک دیا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، کفار قریش مجھ سے جس بات کا سوال کریں گے بشرطیکہ وہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی حرمت