کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 138
چیزیں اٹھا لیں۔ پھر سوار ہو کر تیزی سے اس گدھے پر حملہ کر دیا اور اس کی ٹانگ کاٹ دی۔ پھر صحابہ کرام کے پاس آئے اور کہا چلو اس کو اٹھا کر لے آئیں، صحابہ کرام نے کہا: ’’ہم تو اسے ہاتھ بھی نہ لگائیں گے‘‘ یہ سن کو وہ خود گئے اور اس کو اٹھا کر صحابہ کرام کے پاس لے آئے۔ گدھا مر چکا تھا (اس کا گوشت پکایا گیا) بعض صحابہ نے گوشت کھایا اور بعض کو حالت احرام میں اس کا گوشت کھانے میں شبہ ہوا، لہٰذا انہوں نے نہیں کھایا۔ پھر وہ لوگ آگے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافی آگے نکل گئے تھے۔ صحابہ کرام کو اندیشہ ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چھوٹ نہ جائیں (لہٰذا وہ تیزی سے روانہ ہوئے) حضرت ابو قتادہ بھی گھوڑے کو تیزی سے دوڑاتے اور کبھی آہستہ چلاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ اندھیری رات میں انہیں بنو غفار کا ایک شخص ملا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے انہیں تصھن میں چھوڑا ہے اور دوپہر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام سقیا میں قیام فرمائیں گے۔ حضرت ابو قتادہ آپ سے جا کر مل گئے اور عرض کیا: ’’آپ کے اصحاب آپ پر سلام اور رحمت بھیجتے ہیں، انہیں اندیشہ ہے کہ دشمن انہیں آپ سے دور نہ کر دے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتظار فرمائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے انتظار میں ٹھہر گئے۔ جب صحابہ کرام آپ کے پاس پہنچے تو آپ سے اس گدھے کے گوشت کے کھانے کے متعلق پوچھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم نے شکار کیا تھا یس کسی کی مدد کی تھی یا اشارہ کیا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’نہیں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے؟ حضرت ابو قتادہ ایک دست چھپا کر لے آئے تھے کہنے لگے ’’جی ہاں باقی ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ