کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 13
غالب آ جائے۔
آج کا نام نہاد متمدن اور اسلام کی روح اور مزاج سے نابلد دانشور فضول بحثوں میں اُلجھا ہوا ہے کہ کیا اسلام اخلاق سے پھیلا یا تلوار سے؟ ارے عقل کے کورے جہاں تلوار کی ضرورت پڑی وہاں مسلمانوں کی تلوار چلی اور جہاں اخلاق کی ضرورت پیش آئی وہاں مسلمان کے اخلاق نے اپنا کام دکھایا۔ برے لوگوں کی برائیوں کا خاتمہ ہمیشہ طاقتور اور مضبوط ڈنڈے سے ہی کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر وہ باغی اور متمرد شخص جو بندگان خدا پر اپنی من مانی مسلط کرتا ہے۔ اس کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔
یہ دنیا ’’ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ‘‘ کی مصداق بن چکی ہے۔ ہر تیسرے گھر سے ’’اغشا يا حجاج‘‘ کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔ انسانوں کی آبادی میں ظلم بھی بکتا ہے اور عدل بھی، ان میں سے ہر ایک کے خریدار اس وامعتصماء کی پکار سے ہمارے سینے چھلنی کیوں نہیں ہوتے۔ یہ دنیا ظلم کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ مسلمانو! اُٹھیے ان تمام سماجی، معاشرتی اور معاشی ناانصافیوں کو جہاد کے بل بوتے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا دو ورنہ تاریخ تمہیں معاف نہیں کرے گی اور نہ ہی کل قہار و جبار تم سے درگزر کرے گا۔
وہ دیکھو تمہارے سامنے کتنی بے گناہ خلقِ خدا ہاتھ جوڑے کھڑی ہے وہ کتنے ستم رسیدہ والدین ہیں جن کے سامنے دسترخوان پر اِن ہی کے گوشہ جگر کا گوشت کھانے کے لئے پیش کر دیا گیا ہے اور کتنے لوگوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ اس نیلے آسمان کے نیچے اور خدا کی سرزمین پر ان کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔
اے عصر حاضر کے مفکر! تو مظلوموں اور ظالموں کی بستیوں کا رخ کر۔ مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلا اور ظلم کی تلوار کو اپنے اخلاق کریمہ