کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 124
سورج غروب ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول میں عصر کی نماز پڑھنے نہ پایا تھا کہ سورج غروب ہو گیا‘“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم میں نے بھی نہیں پڑھی، اللہ ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے جنہوں نے ہمیں بیچ والی نماز پڑھنے کی مہلت نہ دی۔‘‘ یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا پھر سب صحابہ بطحان کے مقام پر گئے۔ سب نے وضو کیا، پھر سب نے سورج غروب ہونے سے پہلے نماز عصر پڑھی اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔ (21) دوران جنگ قریش کے ایک شخص نے جس کو حبان بن عرقہ کہا جاتا تھا۔ حضرت سعد بن معاذ کو ایک تیر مارا، تیر ان کی رگ اکحل اور سینہ میں لگا۔ اکحل ہاتھ کی بیچ کی رگ کو کہتے ہیں۔ وہ شدید زخمی ہو گئے۔ (22) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے دست مبارک سے داغ دیا۔ زخم پر ورم آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ داغ دیا۔ حضرت ابی بن کعب بھی رگ ہفت اندام میں تیر لگنے سے زخمی ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک طبیب کو بھیجا۔ طبیب نے ان کی فصد کی اور پھر داغ دیا۔ (23) کچھ عرصہ بعد آپ نے داغ دینے سے منع فرما دیا۔ لڑائی نے طول کھینچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کی کہ اے اللہ! کتاب کے اتارنے والے۔ جلدی حساب لینے والے، ان افواج کو شکست دے۔ اے اللہ ان کو شکست دے اور ان کو جھنجھوڑ ڈال۔ (24) دعاؤں کے سننے والے نے اپنے رسول کی دعا سن لی۔ جاڑے کی سخت رات