کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 123
مذکورہ بالا واقعہ میں اس نوجوان کو جو نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گھر جاتے وقت کی تھی اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا قبیلہ بنو قریظہ بھی خفیہ طور پر کفار کے ساتھ ملا ہوا تھا اور عملاً کفار کی مدد کر رہا تھا۔ (الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ) (19) ’’جن اہل کتاب نے ان (دشمنانِ اسلام) کی مدد کی تھی۔‘‘ مدینہ منورہ کے باہر مشرکین تھے، جنہوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور اندرون شہر یہودی اور منافقین سازش میں لگے ہوئے تھے۔ انتہائی خطرناک حالات تھے جن سے مومنین دوچار تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون جا کر بنو قریظہ کی خبر لائے گا؟‘‘ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس قوم کی خبر کون لائے گا؟‘‘ حضرت زبیر نے پھر عرض کیا: ’’میں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر (رضی اللہ عنہ) ہیں۔‘‘ الغرض حضرت زبیر رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے۔ صحابہ کرام کے بچے جو حضرت حسان کے قلعہ میں محفوظ تھے ان میں عبداللہ بن زبیر اور عمر بن ابی سلمہ بھی تھے۔ یہ دونوں بچے باری باری ایک دوسرے پر چڑھ کر باہر کا نظارہ کرتے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے دو تین مرتبہ اپنے والد کو ہتھیار لگائے ہوئے بنو قریظہ کی بستی میں آتے جاتے دیکھا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کی جاسوسی کر کے واپس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام حال سنایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر میرے ماں باپ قربان ہو جائیں۔ (20) جنگ شدت سے جاری تھی، ایک دن تو اتنی مہلت بھی نہ مل سکی کہ مسلمان نماز عصر پڑھتے۔ چونکہ ابھی تک صلوٰۃِ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔