کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 121
رجوع برحمت ہو بےشک اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ میدان جہاد میں اترتے وقت مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے نصرت پر پورا یقین رکھنا چاہیے۔ کفار کی کثرت سے ہرگز خائف نہیں ہونا چاہیے۔ تلواروں کے سائے تلے اس کی طرف سے مدد کا امیداوار ہونا چاہیے کہ وہ ذات مجھے ضائع نہ کرے گی۔ جنگ احزاب میں آنے والے صحابہ کرام جذبہ ایمانی سے پوری طرح سرشار تھے۔ قدرت نے ہوائیں چلا چلا کر ان کی مدد فرمائی چونکہ کائنات کی ہر چیز پر اسی کی ذات کا تصرف ہے۔ جنگ شروع ہوئی مسلمان بےجگری سے لڑتے رہے۔ اس کے برعکس منافقین نے جنگ سے پہلوتہی اختیار کی۔ بلکہ دوسروں کو بھی جنگ سے روکنے کی کوششیں کرتے رہے۔ قرآن حکیم نے منافقین کے بارے میں فرمایا: (قَدْ يَعْلَمُ ا للّٰهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنكُمْ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا ۖ وَلَا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٨﴾ أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَـٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ ا للّٰهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيرًا ﴿١٩﴾) (17) ’’بےشک اللہ جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو (جہاد سے) روکتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر ہماری طرف آ جاؤ اور یہ لوگ لڑائی میں نہیں آتے مگر بہت کم۔ تمہارے حق میں بخیل ہو کر پھر جب خوف (کا موقع) آ جائے تو آپ انہیں دیکھتے کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھنے لگتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھومتی ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو، پھر جب وہ خوف دور ہو جائے تو تمہیں تکلیف پہنچائیں تیز زبانوں سے، حرص کرتے ہوئے (غنیمت کے) مال پر وہ لوگ (پہلے ہی سے) ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے عمل ضائع