کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 12
یہ لوگ اسلام کے بدترین دشمن ہیں۔ سورۃ التوبہ میں ہے:
(وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ) (سورۃ التوبہ: آیت 36)
ترجمہ: ’’اور باہم تمام مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب مل کر (تم سے) لڑتے ہیں‘‘۔
جہاد کا حکم نافذ ہو گیا جس کا اطلاق تمام بت پرست قوموں پر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: ’’مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں‘‘۔
جب یہودیوں نے مسلمانوں سے عہد شکنی کی اور انہوں نے مشرکین مکہ کا مختلف جنگوں میں ساتھ دیا تو اللہ نے ان کے خلاف بھی صف آرائی کا حکم فرما دیا۔ سورۃ الانفال میں ہے:
(وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ ا للّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ ﴿٥٨﴾) (سورۃ الانفال: آیت 58)
’’اور اگر اے پیغمبر! تجھ کو کسی قوم کی طرف سے دغا کا اندیشہ ہو (جس سے تو نے عہد کیا ہے) تو سیدھے طور سے اس قوم کو (ان کا عہد واپس کرو) کیونکہ اللہ تعالیٰ دغا بازوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
گویا یہودیوں سے جہاد کرنا فرض ہو گیا حتیٰ کہ وہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کریں یا اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور کمتر زندگی گزاریں۔ ان قوموں کے خلاف آپ نے جہاد کیا اس کی کئی وجوہات تھیں مثلاً:
مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو اپنے ہاں نہ دہنے دیا حتیٰ کہ جب اسلام کے نام لیوا اپنا سب کچھ چھوڑ کر یثرب (مدینہ) چلے گئے تو بھی انہوں نے سکھ اور چین سے انہیں نہ رہنے دیا۔
جہاد سے اعراض کرنا قرآن حکیم کی محکم بات کا انکار ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ عالم کفر کے خلاف جہاد کے لئے نکلے حتیٰ کہ اللہ کا دین دنیا میں