کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 118
’’جب کافر تم پر چڑھ آئے، تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے اور جب آنکھیں پھری کی پھری رہ گئیں اور دل منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے متعلق مختلف گمان کرنے لگے۔ وہ مکان تھا جہاں مسلمانوں کی آزمائش کی گئی اور وہ نہایت سختی سے ہلا دئیے گئے۔‘‘ رات کا وقت تھا۔ ہوا تیز چل رہی تھی۔ سردی کی شدت تھی کہ عین اس عالم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر لائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو میری معیت نصیب فرمائے گا‘‘ سب خاموش رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا۔ پھر سب خاموش رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ سے فرمایا: ’’اٹھو اور جا کر کفار کی خبر لاؤ، دیکھو انہیں مجھ پر نہ اُکسانا‘‘ حضرت حذیفہ نے حکم کی تعمیل کی۔ اتنی سخت سردی کے باوجود انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا وہ گرم حمام میں چلے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کفار کی فوجوں تک پہنچ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ابوسفیان اپنی پیٹھ سینک رہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے تیر کمان پر چڑھایا اور انہیں مارنے کا ارادہ کیا۔ وہ تیر مارنے ہی والے تھے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آیا کہ ’’انہیں مجھ پر نہ اُکسانا‘‘ لہٰذا انہوں نے تیر نہ مارا وہ کہتے ہیں کہ اگر میں تیر مارتا تو ضرور ابوسفیان کے لگتا، الغرض کفار کی جاسوسی کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ وہاں سے واپس ہوئے اور انہیں پھر وہی محسوس ہوا کہ وہ گرم حمام میں چل رہے ہیں جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سب حال بیان کر چکے تو پھر سردی محسوس ہونے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا۔ جسے اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کمبل اوڑھ کر صبح تک سوتے رہے۔ جب صبح صادق ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بہت زیادہ سونے