کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 117
علیہ وسلم کے بال اور شکم مبارک خاک سے چھپ گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ابن رواحۃ کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے: اللهمَّ لولا أنت ما اهتدينا ولا تصدَّقنا ولا صلَّينا فأَنْزِلَنْ سَكِينةً علينا وثبِّت الأقدام إن لاقينا إنَّ الأعداءَ قد بغوا علينا إذا أرادوا فتنةً أبينا ’’اے اللہ! اگر تیرا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت یاب نہ ہوتے۔ نہ صدقے دیتے، نہ نماز پڑھتے، ہم پر تسکین نازل فرما اور اگر دشمن سے ہمارا مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ، بےشک ان لوگوں نے ہم پر زیادتی کی ہے، اگر یہ فتنہ کا ارادہ کریں گے تو ہم ایسا نہ ہونے دیں گے اور آخری لفظ ابینا ابینا کے ساتھ اپنی آواز کو بلند فرماتے۔ (9) خندق تیار ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری شروع کر دی اور ہتھیار وغیرہ پہن لئے۔ (10) ادھر مسلمان خندق کی کھدائی سے فارغ ہوئے، ادھر کفار کے لشکر جوق در جوق پہنچنا شروع ہو گئے۔ ایک عرصہ سے جنگ کا خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا۔ بالآخر قرآن کہتا ہے: (إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ) (11) ’’جب کافروں کی فوجیں تم پر آ پہنچیں۔‘‘ قرآن مجید کے لفظ ’’احزاب‘‘ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ متعدد فوجیں تھیں جنہوں نے یکبارگی مدینہ منورہ پر حملہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے بچوں اور عورتوں کو حضرت حسان کے قلعہ میں محفوظ کر دیا (12) یہ الفاظ صرف مسلم کی روایت میں ہیں۔ (إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِالِلّٰهِ الظُّنُونَا ﴿١٠﴾ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا ﴿١١﴾) (13)