کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 114
(ترجمہ) ’’اے اللہ کوئی عیش (حقیقی) نہیں سوائے آخرت کے عیش کے (اے اللہ) انصار اور مہاجرین کی اصلاح فرما۔‘‘ بخاری کے الفاظ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اگرچہ بھوکے تھے (لیکن بڑے اطمینان و حوصلہ کے ساتھ) محض اللہ کی رضا جوئی کی خاطر وہ یہ تمام مصیبتیں برداشت کر رہے تھے (کبھی ایسا ہوتا کہ) لوگ ایک مٹھی جو لاتے، پھر وہ بدبودار روغن میں پکائے جاتے اور قوم کے سامنے رکھ دئیے جاتے۔ کھاتے وقت جو حلق میں ناگوار بھی معلوم ہوتے اور ان میں بدبو بھی آتی تھی۔ (6) تاہم چاروناچار انہیں کھانا پڑتا تھا۔ خندق کھودتے کھودتے اتفاقاً ایک چٹان نکل آئی (وہ اتنی سخت تھی کہ کسی سے نہ ٹوٹی) لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر عرض کیا کہ ایک چٹان (ایسی) نکل آئی ہے (کہ کسی طرح نہیں ٹوٹتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خود آ کر اسے توڑتا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں روانہ ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے۔ تین روز سے کسی نے بھی کھانا نہ کھایا تھا۔ ایسے عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھینچ کر کدال ماری، کدال مارتے ہی وہ چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ (7) جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں تو خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئے۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اجازت حاصل کر کے وہ اپنی بیوی کے پاس آئے۔ بیوی سے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ میں صبر نہیں کر سکتا۔ تمہارے پاس (کھانے کے لئے) کچھ ہے۔ بیوی نے کہا: ’’میرے پاس کچھ جو اور ایک بکری کا بچہ ہے‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے تھیلی میں سے جو نکالے جو حجم میں صرف ایک صاع