کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 111
جنگ کا مقصد صرف مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ قرآن میں ہے: (يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللّٰه بِأَفْوَاهِهِمْ وَا للّٰهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿٨﴾) (1) ’’وہ اپنے منہ سے پھونکیں مار کر اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے خواہ کافر کتنا ہی برا منائیں۔‘‘ کافروں نے اسی مقصد کی خاطر مدینہ پر حملہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں جنگ خندق ہوئی، جنگ خندق جنگ اُحد کے ٹھیک ایک سال بعد ہوئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں کے حملہ کرنے کی خبر ملی تو سب سے پہلا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ مومنین کی مردم شماری کرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جو لوگ اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں ان کے نام لکھ کر لاؤ۔ اس حکم کی تعمیل میں ایک ہزار پانچ سو مردوں کے نام لکھے گئے۔ (2) مدینہ منورہ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے، ہر وقت کھٹکا سا لگا رہتا تھا کہ کسی وقت بھی حملہ ہو جائے گا۔ ایک رات ایسا ہوا کہ مدینہ کے باہر سے خوفناک آواز آئی۔ تمام اہل مدینہ گھبرا گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا عاریتاً لیا جو بہت سست رفتار تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہو کر مدینہ کے باہر دیکھنے کے لئے گئے (کہ یہ کیسی آواز ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اور لوگ بھی تیار ہو گئے اور اس آواز کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں تلوار لٹکی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، گھبراؤ نہیں، کوئی خطرہ نہیں، میں دیکھ کے آ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ