کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 11
اپنے ملک (مکہ سے) یہ کہنے پر کہ ہمارا مالک اللہ ہے تو ناحق اپنے گھروں سے نکالے گئے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں حکم فرمایا:
(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰه الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ ا للّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿١٩٠﴾وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ﴿١٩١﴾ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ ا للّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٩٢﴾ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّٰهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٩٣﴾)(سورۃ البقرہ: آیت 190 تا 193)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی اللہ کی راہ میں (یعنی دین کی حمایت میں نہ کہ دنیا کی غرض سے) ان سے لڑو اور زیادتی مت کرو۔ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور ان کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انہوں نے تم کو جہاں سے نکالا (یعنی مکہ سے) تم بھی ان کو وہاں سے نکال باہر کرو اور دین کی خرابی قتل سے بدتر ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے مت لڑو جب تک وہ تم سے اس جگہ نہ لڑیں۔ پھر اگر وہ (مسجد حرام میں) تم سے لڑیں تو تم بھی ان کو قتل کرو کافروں کی یہی (قتل و اخراج) سزا ہے پھر اگر وہ (لڑنے) سے باز آ جائیں (اور اسلام قبول کر لیں) تو اللہ (اگلے قصوروں کو) بخشنے والا (اپنے بندوں پر) مہربان ہے۔ ان سے یہاں تک لڑو کہ دین کی خرابی نہ رہے اور اللہ کا ایک دین ہو جائے (خدا کے سوا دوسرا کوئی نہ پوجا جائے) پھر اگر وہ (کفر یا مخالفت سے) باز آ جائیں (اور اسلام قبول کر لیں) تو اللہ (اگلے قصوروں کو) بخشنے والا (اپنے بندوں پر) مہربان ہے۔ ان سے یہاں تک لڑو کہ دین کی خرابی نہ رہے اور اللہ کا ایک دین ہو جائے (خدا کے سوا دوسرا کوئی نہ پوجا جائے) پھر اگر وہ (کفر یا مخالفت سے) باز آ جائیں تو اب ان پر کوئی زیادتی نہ ہو گی مگر جو ظلم کریں۔‘‘
ابھی سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے خلاف ایک ہی محاذ کھولا تھا کہ عرب کے دیگر مشرکین اور اسلام کے دشمن اکٹھے ہو گئے۔ اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مسلمانو! تم ان کے خلاف بھی لڑنے مرنے کے لئے تیار رہو کیونکہ