کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 106
وسلم سے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور ان سے اس واقعہ کی تحقیق کی۔ تمام منافقین نے قسمیں کھا کر انکار کر دیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کی تکذیب کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سچا سمجھ لیا اور حضرت زید بن ارقم کی بات غلط سمجھا۔ حضرت زید کو اس بات سے شدید صدمہ ہوا۔ وہاں سے اٹھ کر وہ اپنی منزل میں جا کر بیٹھ گے اور کچھ دیر بعد سو گئے۔ جب ان کے چچا کو معلوم ہوا تو وہ ان کے پاس آئے۔ حضرت زید کو غمگین دیکھ کر انہوں نے کہا: تمہاری یہ کیفیت غالباً اس لئے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھوٹا سمجھا اور تم پر خفگی کا اظہار کیا۔ ابھی کچھ دیر گزری نہیں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ جب حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہاری تصدیق کر دی ہے‘‘ (إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللّٰهِ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ ﴿١﴾ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ ا للّٰهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٢﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ﴿٣﴾ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ ا للّٰهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٤﴾) ’’جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو (ضرور) کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بےشک ضرور آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً ضرور آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بےشک منافق ضرور جھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے پھر لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا۔ بے