کتاب: بدر سے تبوک تک - صفحہ 10
لیکن آپ نے اللہ کے دین کی ہمیشہ دعوت دی۔ مکہ میں ظلم و تعدی کا بازار ایسا گرم تھا کہ وہاں شاید ہی کوئی گلی یا کوچہ ایسا بچا ہو جس میں کسی نہ کسی مسلمان کو مشرکوں نے خون سے نہ نہلا دیا ہو۔ مکہ کے درودیوار یہ داستان ظلم دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر لرز اٹھتے تھے۔ ان مظالم کے باوجود اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو صبر کی تلقین فرمائی۔
(فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ)(سورۃ الاحقاف: آیت 35)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے سامنے گزشتہ انبیاء اور اِن کے مصاحبوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بیان فرمایا کرتے۔ جب اہل مکہ کی زیادتیاں برداشت سے بڑھ گئیں اور حد سے تجاوز کر گئیں تو مسلمانوں نے اللہ کے حکم سے اپنے اپنے گھروں کو خیرباد کہا۔ مسلمان ایک ایک کر کے اپنے گھروں سے نکلنے لگے۔ حتی کہ اگر کسی صحابیہ کو تن تنہا ہی فرار ہونے کا موقع مل جاتا وہ بھی اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر محفوظ منزل کی طرف چل دیتی۔ اس سے اس کے بال بچے چھین لئے جاتے تو بھی وہ اپنی منزل کھوٹی نہ کرتی۔ ان حالات میں مسلمانوں نے اپنے لئے حبشہ اور یثرب ہی محفوظ جگہ سمجھا مگر کفار مکہ نے مسلمانوں کو وہاں بھی آرام و سکون سے نہ رہنے دیا۔ تب اللہ نے مہاجرین کو مشرکوں کے خلاف جہاد کی اجازت دی۔
(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ ا للّٰه عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴿٣٩﴾ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا ا للّٰهُ )(سورۃ الحج: آیت 39، 40)
’’اب جن (مسلمانوں سے کافر) لڑتے ہیں ان کو بھی (لڑنے کی) اجازت ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور بےشک اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے جو