کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 93
صدقہ فطر کی حفاظت کے لیے محافظ مقرر فرمایا(تو اس دوران میں)ایک شخص آیا اور اس نے غلہ سے لپیں بھر بھر کر اشیا نکالنی شروع کردیں،میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: ((وَ اللّٰہِ لَأَرْفَعَنَّکَ اِلـٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) ’’اللہ کی قسم! میں تجھے ہر صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر جاؤں گا۔‘‘ وہ کہنے لگا:میں محتاج آدمی ہوں،بال بچے دار ہوں اور سخت حاجت مند ہوں(لہٰذا معاف کردو)چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ! مَا فَعَلَ أَسِیْرُکَ الْبَارِحَۃَ؟)) ’’ابو ہریرہ! گزشتہ رات تمھارے قیدی کا کیا بنا؟‘‘ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے اپنی شدید حاجت کا اظہار کیا اور بال بچوں کا شکوہ کیا،میں نے اس پر رحم کیا اور اسے چھوڑ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((أَمَا اِنَّہٗ قَدْ کَذَبَکَ وَسَیَعُوْدُ)) ’’خبردار رہنا،اس نے جھوٹ بولا ہے اور وہ پھر آئے گا۔‘‘ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ ضرور آئے گا،چنانچہ میں اس کی گھات میں بیٹھ گیا۔وہ آیا اور غلے میں سے لپیں بھرنے لگا۔میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب تو میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ضرور لے کر جاؤں گا،اس نے کہا مجھے چھوڑ دے،میں غریب ہوں،عیالدار ہوں،آئندہ نہیں آؤں گا،میں نے رحم کھاتے ہوئے اسے پھر چھوڑ دیا۔صبح ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:اے ابو ہریرہ! تمھارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے