کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 178
جس میں اسی سالہ بوڑھے حضرت ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔دورانِ مہم وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔چنانچہ انھیں سرزمینِ دشمن ہی میں دفنا دیا گیا۔قیصرِ روم کو خبر ملی تو اس نے اعلان کیا کہ’’اسلامی لشکر کی واپسی کے بعد میں میت کی ہڈیاں قبر سے نکال کر باہر پھینک دوں گا۔‘‘ قیصر کے اس گستاخانہ اعلان پر امیر لشکر نے جواب دیا:’’اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ کی قسم! یاد رکھ،مسلمانوں کی وسیع و عریض سلطنت میں جتنے بھی گرجے ہیں،ان سب کو منہدم کردیا جائے گا اور سارے عیسائیوں کی قبروں کو اکھاڑ پھینکا جائے گا۔‘‘ قیصر نے جب یہ جواب سنا تو فوراً پیغام بھیجا:’’میں تو محض تمھاری دینی غیرت اور حمیت کا امتحان لے رہا تھا،کنواری مریم کی قسم! ہم تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہم کی قبر کا احترام اور حفاظت کریں گے۔‘‘ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد جیسے جیسے مسلمانوں کا قرآن مجید سے اعراض بڑھتا گیا ویسے ویسے ان کی ذلت و رسوائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج قرآنِ مجید کے ساتھ ہمارے اعراض کا حال یہ ہے کہ پاکستان میں سکولوں کے نصاب میں پہلے سے جو چند سورتیں موجود تھیں وہ بھی حکومت نے زبردستی نکال دی ہیں۔عقیدۂ توحید،عقیدۂ ختمِ نبوت،جہاد،حجاب،شرعی حدود،تعددِ ازدواج اور خاندانی نظام سے متعلق قرآنِ مجید کی آیات سے حکومت سخت پریشان ہے کہ کیسے ان سے(معاذ اللہ)جان چھڑائی جائے۔نصابِ تعلیم کو مکمل طور پر سیکولر بنانے کے لیے آغا خان بورڈ جیسے ملحد ادارے کوسارے ملک کے نظام تعلیم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔جن مدارس میں قرآنِ مجید کی تعلیم دی جاتی ہے،ان مدارس کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لیے کبھی ان پر چھاپے مارے جاتے ہیں،کبھی ان کے وسائل محدود کرنے کا قانون بنایا جاتا ہے اور کبھی انھیں