کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 166
} وَ اَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ}[النحل:۱۵] ’’اور اُسی نے زمین پر پہاڑ(بنا کر)رکھ دیے کہ تمھیں لے کر کہیں جھک نہ جائے۔‘‘ اسی طرح زمینی پلیٹوں(Plate Tectonices)کا جدید نظریہ کہتا ہے کہ پہاڑ زمین کے لیے سٹیبلائزرز(Stablzers)ہیں،یعنی اسے استحکام اور توازن بخشتے ہیں۔پہاڑوں کے اس کردار کا علم عشرۂ ۱۹۶۰ء کے اواخر میں ہوا جب زمینی پلیٹوں کا نظریہ سامنے آیا۔اس نظریے کے مطابق اگر پہاڑ نہ ہوں تو زمین کی سطح میں اس قدر تیزی سے تبدیلیاں آئیں کہ بر اعظم ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں۔ کیا کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پہاڑوں کی حقیقی شکل کے بارے میں جان سکتا تھا؟ کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ ٹھوس اور بلند وبالا پہاڑ جو آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں،دراصل زمین کے اندر بہت گہرائی میں اترے ہوئے ہیں اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں،جیسا کہ آج کے سائنسدان اس کی تصدیق کرتے ہیں۔مثلاً کوہ قاف(قفقاز)کی بلند ترین چوٹی 5642 میٹر یعنی تقریباً 5.6 کیلو میٹر اونچی ہے مگر اسی کوہ قاف کی جڑیں زمین کے اندر تقریباً 65 کلو میٹر تک گڑی ہوئی ہیں۔اسی طرح کوہ الپس کی جڑیں میخوں کی طرح 60 کلو میٹر سے بھی زیادہ گہرائی میں اُتری ہوئی ہیں۔یوں جدید علم الارض نے قرآنی آیات کی صداقت کا اعتراف کرلیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں:اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات۔آئی۔اے ابراہیم- محسن فارانی،طبع دار السلام،فضائلِ قرآن مجید،طبع بیت السلام)