کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 160
کے لیے جدوجہد کرتے ہیں مگر عموماً ایک جرثومہ بیضے کو بار آور کرتا ہے۔ بارآوری کے نتیجے میں جو مخلوط نطفہ یا جفتہ بنتا ہے وہ رحمِ مادر سے چمٹ کر غذائیت حاصل کرنے لگتا ہے اور اس کی تقسیم درتقسیم کے عمل سے خلیات نشو و نما پاکر آخر کار’’گوشت کا ٹکڑا‘‘ بن جاتے ہیں۔انسانی جنین کی ساخت اور اس کے تدریجی مراحل چودہ صدیاں پہلے کسی کے علم میں نہ تھے مگر قرآنِ کریم نے اس کے بارے میں واضح اشارے بیان کیے،چنانچہ قرآن میں رحمِ مادر کے اندر نشو و نما پانے والے’’جفتے‘‘ کو علق(جمے ہوئے خون کا لوتھڑا)کہا گیا ہے۔جیسا کہ سورۃ العلق کے آغاز میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: } اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ . خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ . اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ}[العلق:۱ تا ۳] ’’(اے نبی!)اپنے پروردگار کانام لے کر پڑھو جس نے(عالم کو)پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کی پھٹکی(لوتھڑے)سے بنایا۔پڑھو اور تمھارا پروردگار بڑا کریم ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر سورۃ القیامہ میں ارشادِ الٰہی ہے: } اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی . اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی . ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی . فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی}[القیامۃ:۳۶،۳۹] ’’کیاانسان خیال کرتا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ منی کا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے،ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا،پھر(اللہ نے)اس کو بنایا،پھر(اس کے اعضا کو)درست کیا۔پھراس کی دو قسمیں بنائیں(ایک)مرد اور(ایک)عورت۔‘‘