کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 158
قرآنِ مجید نے اس کا انکشاف چودہ صدیاں پہلے کردیا تھا۔ قرآن ِ کریم یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کو حقیر پانی کے خلاصے یا ست(سُلالہ)سے پیدا کیا گیا ہے: } ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍ }[السجدۃ:۸] ’’پھر اس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے پیدا کی۔‘‘ قرآنِ کریم کے بیان کے مطابق وہ رطوبت{مائٍ مَّھین} نسوانی انڈے کو بار آور نہیں کرتی جس میں نطفے کے جرثومے یا تولیدی خلیے(Spermatozoa)تیر رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ تو اس کا صرف ست(Extract)یعنی ایک جرثومہ ہوتا ہے جو انڈے کو بار آور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات یقینی ہے کہ مرد کا نطفہ اس کی مرِضی و اختیار سے پیدا نہیں ہوتا اور نہ عورت کے جسم میں بیضہ اس کی مرضی و اختیار سے پیدا ہوتا ہے بلکہ انھیں تو اس سارے عمل کی خبر بھی نہیں ہوتی۔سورۃ الواقعہ میں اللہ کا ارشاد ہے: } نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلاَ تُصَدِّقُوْنَ . اَفَرَاَیْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ . ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ}[الواقعۃ:۵۷ تا ۵۹] ’’ہم نے تم کو(پہلی بار بھی تو)پیدا کیا ہے تو تم(دوبارہ اٹھنے کو)کیوں سچ نہیں سمجھتے؟ دیکھو تو کہ جس(نطفے)کو تم(عورتوں کے رحم میں)ڈالتے ہو۔اس(سے انسان)کو تم بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں ؟‘‘ مرد اور عورت کے تولیدی خلیات کی تخلیق،ان کا ملاپ اور پھر اس مخلوط خلیے کو انسانی شکل دینا خالقِ کائنات کا عظیم معجزہ ہے۔اس سلسلے میں یہ بات بہت حیران کن ہے کہ انسانی نطفہ مرد کے جسم کے’’باہر‘‘ خصیوں میں پیدا ہوتا