کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 142
((وَمَا یُدْرِیْکَ؟))’’تجھے ان سوالوں کا جواب کیسے معلوم ہوا؟‘‘ مومن آدمی کہتا ہے: ((قَرَأْتُ کِتَابَ اللّٰہِ فَٰآمَنْتُ بِہٖ وَ صَدَّقْتُ))(سنن أبي داود:۳/ ۳۹۷۹) ’’میں نے اللہ کی کتا ب پڑھی،اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔‘‘ غرض قبر میں منکر و نکیر کے سوالوں میں کامیابی صرف اُسی کو حاصل ہوگی جو قرآنِ مجید پر ایمان لایا،اسے پڑھا،سمجھا اور اس پر عمل کیا۔یوں قرآنِ مجید برزخ میں بھی اہلِ ایمان کے لیے رحمت ثابت ہوگا۔لمحہ بھر کے لیے تصور کیجیے کہ جب مومن آدمی فرشتوں کے جواب میں یہ کہے گا:’’میں نے اللہ کی کتا ب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی اور اس کی تلاوت کی۔‘‘ تو قبر میں اس کی مسرت اور خوشی کا کیا ٹھکانا ہوگا ؟ اگر مومن آدمی سے دنیا میں کوئی ایسا گناہ سرزد ہوا ہوگا جس پر قبر میں عذاب ہوسکتا ہے تو اس کے لیے بھی قرآنِ مجید پر ایمان،قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر عمل باعثِ رحمت ثابت ہوگا اور قرآنِ مجید عذاب کے فرشتوں کے سامنے رکاوٹ بن جائے گا۔خصوصاً مستدرک حاکم اور حلیۃ الاولیاء میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ((سُوْرَۃُ تَبٰرَکَ ہِيَ الْمَانِعَۃُ مِنْ عَذابِ الْقَبْرِ)) (السلسلۃ الصحیحۃ:۱۱۴۰،صحیح الجامع:۳۶۴۳) ’’سورۃ الملک{تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ} عذابِ قبر سے رکاوٹ ہے۔‘‘ اس کے علاوہ معجم طبرانی میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’تلاوتِ قرآن مومن آدمی کو عذابِ قبر سے محفوظ رکھنے والا عمل ہے۔‘‘