کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 120
اچھا کلام ہے۔اپنی بدگمانی پر کچھ نادم سے ہوئے۔جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر گھر کی طرف چلے تو حضرت طفیل رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔گھر پہنچ کر عرض کیا:میں فلاں قبیلے سے ہوں،قریش کے سرداروں کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سخت بدگمان تھا حتیٰ کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔حرم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے چند کلمات سنے ہیں جو مجھے اچھے لگے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تفصیل سے بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں ؟ جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الاخلاص اور سورۃ الفلق کی تلاوت فرمائی۔حضرت طفیل بن عَمرو رضی اللہ عنہ نے اسی وقت بیعت کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ تیسری مثال: حضرت ضماد ازدی رضی اللہ عنہ زمانۂ جاہلیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے۔مکہ مکرمہ آئے تو لوگوں نے بتایا کہ(حضرت)محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تو دیوانہ ہوگیا ہے۔حضرت ضماد رضی اللہ عنہ جھاڑ پھونک کے ماہر تھے۔اس ارادے سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے کہ ان کا علاج کروں گا تاکہ وہ صحت مند ہوجائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوکر مدعا پیش کیا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کلمہ شہادت ادا فرمایا،پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور اس کے بعد قرآنِ مجید کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا،حضرت ضماد ازدی رضی اللہ عنہ کو یہ کلام پاک اتنا پسند آیا کہ دوبارہ پڑھنے کی درخواست کی۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اعادہ فرمایا۔حضرت ضماد ازدی رضی اللہ عنہ سننے کے بعد کہنے لگے:میں نے پہلے ایسا کلام کبھی نہیں سنا،میں نے کاہنوں کا کلام سنا ہے۔شاعروں اور ساحروں کا کلام بھی سنا ہے مگر یہ کلام تو سمندر کی تہہ تک پہنچنے والا کلام ہے۔حضرت ضمادازدی رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اپنی