کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 72
’’امام ضامن ہے اور مؤذن کو امانت سپرد کی گئی ہے۔
اے اللہ! اماموں کو ہدایت عطا فرمائیے اور اذان دینے والوں کو معاف فرما دیجیے۔‘‘[1]
۸۔ہر چیز کا مؤذن کے لیے استغفار:
امام احمد نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ مؤذن کی تاحدِّ اذان مغفرت فرماتے ہیں اور ہر تر اور خشک چیز اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے۔‘‘[2]
۹۔ ہر روز کی اذان پر ساٹھ نیکیاں:
۱۰۔ بارہ سال اذان پر جنت واجب ہونا:
امام ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے ،کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور اس کے لیے ہر دن کی اذان پر ساٹھ نیکیاں اور اقامت پر تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘[3]
[1] سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ،باب ما یجب علی المؤذن من تعاھد الوقت،رقم الحدیث ۵۱۳، ۲؍۱۵۲؛ وجامع الترمذي،أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ، باب ما جاء أن الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن ، رقم الحدیث ۲۰۷، ۱؍۵۲۳۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود۱؍۱۰۵؛ وصحیح سنن الترمذي ۱؍۶۷ ؛ وصحیح الترغیب والترھیب ۱؍۲۱۵)۔
[2] المسند،رقم الحدیث ۶۲۰۲،۹؍۷۲۔ (ط:القاھرۃ)۔ حافظ منذری اور شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الترغیب والترھیب۱؍۱۷۵؛ وھامش المسند ۹؍۷۲)۔
[3] سنن ابن ماجہ ، أبواب الأذان ، باب فضل الأذان و ثواب المؤذنین، رقم الحدیث ۷۱۳، ۱؍۱۳۱۔۱۳۲۔ حافظ ابن حجر نے اسے [حسن]اور شیخ البانی نے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: نتائج الأفکار۱؍۲۳۱؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۱؍۱۲۲)۔