کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 70
یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے اگلی صف پر درُود بھیجتے ہیں اور مؤذن کے لیے تاحدِّ آواز مغفرت ہے
اور تر اور خشک جو چیز اس [کی آواز ]کو سنتی ہے ،و ہ اس کی تصدیق کرتی ہے
اور اس کے لیے اس کے ساتھ نماز پڑھنے والے کے برابر اجر ہے۔‘‘[1]
۶۔ مؤذن کی روزِ قیامت سب سے اونچی گردن:
امام طبرانی اور امام بزار نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ انہوں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ تجارت کرتے ہیں اور انہوں نے اسے ذریعہ معاش بنا رکھا ہے، اور ہم ایسے نہیں کر سکتے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تم اس پر راضی نہیں ،کہ اذان دینے والے روزِ قیامت سب سے اونچی گردن والے ہوں گے؟‘‘[2]
حافظ ابن حجر نے [گردن کے سب سے اونچے] ہونے کے متعلق محدثین کرام کے درجِ ذیل آٹھ اقوال ذکر فرمائے ہیں:
ا: روزِ قیامت لوگ پیاسے ہوں گے اور اس وجہ سے ان کی گردنیں مڑ جائیں گی۔ اذان دینے والے اس دن پیاسے نہ ہوں گے اور ان کی گردنیں باقی لوگوں کے
[1] المسند ، رقم الحدیث ۱۸۵۰۶، ۳۰؍۴۶۶؛ (ط:مؤسسۃ الرسالۃ)؛ وسنن النسائي، کتاب الأذان، رفع الصوت بالأذان ، ۲؍۱۳۔ حافظ منذری لکھتے ہیں، کہ اسے احمد اور نسائی نے [حسن جید سند] کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو [حسن] اور شیخ البانی نے [صحیح لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ: الترغیب والترہیب ۱/۱۷۶؛ ونتائج الأفکار ۱/۲۲۹؛ وصحیح الترغیب والترہیب ۱/۲۱۴)۔
[2] منقول از: نتائج الأفکار ۱/۲۲۶۔ حافظ ابن حجر نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں، کہ اسے طبرانی نے [المعجم] الکبیر میں روایت کیا ہے اور بزار نے بھی قریباً ایسے ہی روایت کیا ہے اور اس کے ]راویان ثقہ] ہیں۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱/۲۲۶؛ ومجمع الزوائد ۱/۳۲۶)۔