کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 69
۳۔مؤذن کی تاحدِّ آواز معافی:
۴۔ ہر سننے والے کا روزِ قیامت اس کا گواہ ہونا:
ا: حضراتِ ائمہ ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے ،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مؤذن کے لیے تاحدِّ آواز مغفرت ہے اور اس کے لیے ہر تر اور خشک چیز گواہی دے گی۔ ‘‘[1]
ب: امام بخاری نے عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوصعصہ انصاری مازنی سے روایت نقل کی ہے ،کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:
’’ میں دیکھتا ہوں، کہ تم بکریوں اور صحرا کو پسند کرتے ہو۔ پس تم جب اپنی بکریوں یا اپنے صحرا میں ہو اور تم نماز کے لیے اذان دو، تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، کیونکہ جن و انس ، بلکہ تمام چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں ، قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گی۔‘‘
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے یہ [بات] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔‘‘[2]
۵۔ مؤذن کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کا اسے ثواب:
امام احمد اور امام نسائی نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے ،کہ
[1] سنن أبي داود،کتاب الصلاۃ، باب رفع الصوت بالأذان، جزء من رقم الحدیث ۵۱۱، ۲؍۱۴۸؛ وسنن النسائي،کتاب الأذان، رفع الصوت بالأذان، ۲؍۱۳؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب الأذان، فضل الأذان وثواب المؤذنین ، جزء من رقم الحدیث ۷۰۹، ۱؍۱۳۱۔ الفاظِ حدیث سنن أبی داود کے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے اسے [حسن]اور شیخ البانی نے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: نتائج الأفکار ۱؍۲۲۹؛ وصحیح سنن أبي داود ۱؍۱۰۴)۔
[2] صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب رفع الصوت بالنداء، رقم الحدیث ۶۰۹،۲؍۸۷۔۸۸۔