کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 56
{وَاعْفُ عَنَّا وَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا أَ نْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ }[1] (اللہ تعالیٰ نے)فرمایا: ’’ہاں۔‘‘[2] ۲: امام مسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے ،کہ انہوں نے بیان کیا ،کہ : ’’جب جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ، تو انہوں نے اوپر کی جانب سے آواز سنی ، تو اپنے سر کو اُٹھایا، پھر کہا:’’آسمان کا یہ دروازہ آج کھولا گیا ہے ، آج سے پہلے کبھی بھی کھولا نہیں گیا اور اس سے ایک فرشتہ نازل ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے[مزید] کہا: ’’ یہ فرشتہ زمین پر نازل ہوا ہے اور آج سے پہلے کبھی بھی نازل نہیں ہوا۔ اس [فرشتے] نے سلام کیا ، اور کہا: ’’أَبْشِرْ بِنُوْرَیْن أُوْتِیْتَھُمَا، لَمْ یُوْتَھُمَا نَبِيُّ قَبْلَکَ: فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ، وَخَوَاتِیْمُ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ۔ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْھُمَا إِلاَّ أُعْطِیْتَہُ۔‘‘[3] ’’ دو نوروں سے خوش ہو جائیے جو آپ کو دیے گئے ہیں ، آپ سے پہلے وہ کسی بھی نبی کو نہیں دیے گئے: فاتحۃ الکتاب اور سورۃ البقرہ کا آخری حصہ۔ آپ ان میں سے کوئی حرف بھی نہیں پڑھیں گے ،مگر وہ دئے جائیں گے(یعنی
[1] [ترجمہ:’’ ہم سے در گذر فرمائیے اور ہماری مغفرت فرمائیے اور ہم پر رحم فرمائیے ، آپ ہمارے آقا ہیں، پس کافروں کی قوم پر ہمیں غلبہ نصیب فرمائیے۔‘‘] [2] صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب بیان أنہ سبحانہ وتعالیٰ لم یکلف إلاّ ما یُطَاق،رقم الحدیث ۱۹۹۔(۱۲۵)،۱؍۱۱۵۔۱۱۶۔ [3] المرجع السابق،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل الفاتحۃ وخواتیم سورۃ البقرۃ،… ، رقم الحدیث ۲۵۴۔ (۸۰۶) ،۱؍۵۵۴۔