کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 53
۳: ہر برائی سے کفایت کر گئیں۔ ۴: شیطان کے شر سے کفایت کر گئیں۔ ۵: جن و انس کے شر سے کفایت کر گئیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ،کہ ممکن ہے ،کہ یہ سارے معانی ہی [حدیث شریف سے] مقصود ہوں۔[1] ب: تین رات تک پڑھے جانے والے گھر سے شیطان کا دور ہونا: امام دارمی نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے ،کہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ، وَأَنْزَلَ مِنْہُ آیَتَیْنِ خَتَمَ بِھِمَا سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ، وَلَا تُقْرَآنِ فِيْ دَارٍ ثَلَاثَ لِیَالٍ فَیَقْرُبُھَا الشَّیْطَانُ۔‘‘[2] ’’بلا شبہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب تحریر فرمائی اور اس میں سے دو [ایسی]آیتیں نازل فرمائیں ،کہ ان کے ساتھ سورۃ البقرہ کو ختم فرمایا، اور ایسا [ممکن] نہیں ،کہ یہ دو نوں کسی گھر میں تین رات پڑھی جائیں اور [پھر] شیطان اس کے قریب آئے۔‘‘ ج: سورت کے آخر کے ساتھ کی گئی دعا کی قبولیت: ۱:امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ انہوں نے بیان کیا ،کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر [یہ] آیت نازل ہوئی:
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۹؍۵۶۔ [2] مسند الدارمي المعروف بسنن الدارمي ، کتاب فضائل القرآن،باب فضل أول سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسي،رقم الحدیث ۳۴۳۰،۳؍۲۱۳۲۔ شیخ حسین سلیم نے اس کی [سند کوصحیح] قرار دیا ہے۔ (ھامش الدارمي ۳؍۲۱۳۲)۔