کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 47
’’سورۃ بقرہ پڑھو، کیونکہ اس کا حصول[باعثِ] برکت ہے ، اور اس کا چھوڑنا [سببِ] حسرت ہے ، اور ناکارے اس کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘[1] ب: اس کے پڑھے جانے والے گھر سے شیطان کی دوری: امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ،وَإِنَّ الْبَیْتَ الَّذِيْ تُقْرَأُ الْبَقَرَۃُ فِیْہِ لَا یَدْخُلُہُ الشَّیْطَانُ۔‘‘ [2] ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ،[3]یقینا جس گھر میں [سورۃ] البقرہ پڑھی جائے ، اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔‘‘ ج: اس کے پڑھے جانے والے گھر سے شیطان کا فرار: امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ۔ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِيْ تُقْرَأُ فِیْہِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ۔‘‘[4]
[1] یعنی کاہل اور نالائق لوگ اسے پڑھنے، اس کے معانی پر تدبر کرنے اور اس میں بیان کردہ اوامر و نواہی پر عمل کرنے سے محروم ہیں۔ایک دوسرا معنیٰ شاید یہ بھی ہے، کہ [البطلۃ] سے مراد جادو گر ، اور جملے کا معنیٰ یہ ہے، کہ جادوگر اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ وَاللّٰہُ تَعالٰی أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ [2] جامع الترمذي،أبواب فضائل القرآن عن رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ، باب ما جاء فی سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسي،رقم الحدیث۳۰۳۷ ، ۸؍۱۴۶۔ امام ترمذی نے اسے [حسن صحیح] اور شیخ البانی نے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۸؍۱۴۶؛ وصحیح سنن الترمذي۳؍۴)۔ [3] یعنی گھر ذکر و طاعت سے خالی ہو کر قبرستان کی طرح نہ ہو جائیں اور تم ان میں مردوں کی مانند ہو جاؤ۔ (ملاحظہ ہو: تحفۃ الأحوذي۸؍۱۴۶)۔ [4] صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا ،باب استحباب صلاۃ النافلۃ في بیتہ وجوازھا في المسجد،رقم الحدیث ۲۱۲۔ (۷۸۰)،۱؍۵۳۹۔