کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 46
کیا تم نے صرف اسی کے ساتھ دم کیا ؟‘‘) مسدد [1]نے ایک اور مقام پر بیان کیا :[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا]: ’’کیا تم نے اس کے سوا کچھ اور پڑھا؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’نہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس[یعنی سو بکری] کو لے لو ، میری زندگی کی قسم! [2] اگر کوئی باطل جھاڑ پھونک سے کھاتا ہے ، تو تم تو سچے دم کے ذریعے سے کھا رہے ہو۔‘‘[3] ۲: سورۃ البقرہ: ا: اسے لینا باعثِ برکت ، چھوڑنا باعثِ حسرت: امام مسلم نے حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ اِقْرَؤُوْا سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ، فَإنَّ أَخْذَھَا بَرَکَۃٌ، وَتَرْکَھَا حَسْرَۃٌ، وَلَا یَسْتَطِیْعُھَا الْبَطَلَۃُ۔‘‘[4]
[1] (مسدد): حدیث شریف کے راویوں میں سے ایک راوی۔ [2] (میری زندگی کی قسم!) : اس سے مراد قسم نہیں، بلکہ لوگوں کے گمان کے اعتبارسے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوئے۔ (یا)شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح قسم کھانے کی اجازت تھی اور یہ بات صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد : (لَعَمْرُکَ إِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ)۔ (سورۃ الحجر؍الآیۃ ۷۲) ۔ [آپ کی عمر کی قسم! بے شک وہ اپنی مدہوشی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔] میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی قسم کھائی ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔ (ملاحظہ ہو: شرح الطیبي ۷؍۲۲۱۲۔ ۲۲۱۳۔ نیز ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۶؍۱۸۱)۔ [3] سنن أبي داود،کتاب الطب،باب کیف الرقي؟،رقم الحدیث ۳۸۹۱،۱۰؍۲۷۷۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود۲؍۷۳۷)۔ [4] صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃالبقرۃ،جزء من رقم الحدیث ۲۵۲۔ (۸۰۴)، ۱؍۵۵۳۔