کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 43
الدُّنْیَا ، فَإِنَّ مَنْزِلَتَکَ عِنْدَ آخِرِ آیَۃٍ تَقْرَؤُھَا۔‘‘[1] ’’ قرآن والے سے کہا جائے گا:’’پڑھو اور اوپر چڑھو اور جس طرح تم ترتیل کے ساتھ دنیا میں پڑھتے تھے ،اسی طرح پڑھو،کیونکہ یقینا تمہارا مقام وہاں ہے ، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر پہنچو گے۔‘‘ ۔ب۔ بعض سورتوں اور آیات کے فضائل ا: سورۃ الفاتحہ کے ساتھ دم: ۱: ڈسے ہوئے کا شفا یاب ہونا: امام بخاری نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوںنے بیان کیا، کہ: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم ایک سفر میں نکلے۔ دورانِ سفر وہ عرب کے ایک قبیلے کے پاس اُترے۔ انہوں نے ان کا مہمان بننا چاہا ، لیکن انہوں [یعنی قبیلے والوں]نے مہمان داری سے انکار کر دیا۔ اس قبیلے کا سردار ڈسا گیا ۔ انہوں نے اس [کے علاج] کی خاطر ہر ممکن کوشش کی ، لیکن اسے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا:’’ جو لوگ تمہارے پاس آئے ہیں ، ان کے پاس جاؤ ،کہ شاید ان میں سے کسی کے پاس [اس کے علاج کے لیے] کوئی چیز ہو۔‘‘
[1] سنن أبي داود،أبواب قیام اللیل،تفریع أبواب الوتر،باب کیف یُسْتَحبّ الترتیل فی القراء ۃ، رقم الحدیث ۱۴۶،۴؍۲۳۷؛ وجامع الترمذي،أبواب فضائل القرآن عن رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ، رقم الحدیث۳۰۸۱، ۸؍۱۸۶۔۱۸۷۔ الفاظِ حدیث سنن أبي داود کے ہیں۔ امام ترمذی اور شیخ البانی نے اسے [حسن صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۸؍۱۸۷، وصحیح سنن أبي داود ۲؍۲۷۵؛ وصحیح سنن الترمذي ۳؍۱۰)۔