کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 34
انہوں نے عرض کیا: ’’واللہ! ہمارے بیٹھنے کا سبب صرف یہی ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَمَّا إِنِّيْ لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُہْمَۃً لَکُمْ ، وَلٰکِنَّہٗ أَتَانِيْ جِبْرِیْلُ، فَأَخْبَرَنِيْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُبَاھِيْ بِکُمُ الْمَلَائِکَۃَ۔‘‘[1] ’’ سنو میرا تمہیں قسم دے کر پوچھنا تمہارے بارے میں شک و شبہ کی بنا پر نہیں ، لیکن (اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ) میرے پاس جبریل آئے اور مجھے خبر دی ،کہ اللہ عزوجل تمہارے ساتھ فرشتوں پر فخر کرتے ہیں۔‘‘ ۲۱۔ کثرتِ ذکر سے اسوہ حسنہ کی پیروی کا نصیب ہونا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا}[2] [بلاشبہ یقینا تمہارے لیے رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ میں اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہو۔] قاضی ابوسعود کثرت سے ذکر کرنے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اچھا نمونہ ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ذکر الٰہی پر مداومت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت گزاری تک پہنچا دیتی ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی نصیب ہوتی ہے۔[3]
[1] صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، جزء من رقم الحدیث ۴۰۔ (۲۷۰۱)،۴؍۲۰۷۵۔ [2] سورۃ الأحزاب/الآیۃ : ۲۱۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۷/۹۶؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوی ۲/۲۴۳؛ وروح المعاني۲۱/۱۶۸۔