کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 182
نقل کی ہے ،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بندہ جب تک گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اورعجلت پسندی نہ کرے، تو اس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘ عرض کیا گیا: ’’ یا رسول اللہ! عجلت پسندی کیا ہے؟ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہ کہتا ہے: ’’ بلاشبہ میں نے دعا کی، بلاشبہ میں نے دعا کی، [لیکن] مجھے اپنی دعا قبول ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہی۔ ‘‘ پھر وہ [دعا کرنے سے] اکتا جاتا ہے اور دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ‘‘[1] و: امر بالمعروف اورنہی عن المنکر چھوڑ نا: امام احمد اور امام ترمذی نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما سے روایت نقل ہے ،کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نیکی کا حکم ضرور دوگے اور برائی سے ضرور روکو گے ،وگرنہ قریب ہے ،کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیجیں، پھر تم ضرور ان سے دعا کروگے ،لیکن وہ تمہاری دعا قبول نہ فرمائیں گے۔ ‘‘[2] اللہ کریم ہمارے اذکار اور دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور فرمادیں۔ آمین یا حي یا قیوم! (۳) ثمراتِ اذکار کے بارے میں مایوس نہ ہونا فوائدِ اذکار کی رکاوٹوں کی عدم موجودگی کے باوجود ان کے ظاہر نہ ہونے پر ذکر کرنے والا شخص اپنے بارے میں محرومی کا فیصلہ کرنے سے گریز کرے۔ کتنی ہی دفعہ اللہ
[1] صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب بیان أنہ یستجاب للداعي مالم یعجل …، رقم الحدیث ۹۲۔ (۲۷۳۵)، ۴؍۲۰۹۶۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۲۳۳۰۱، ۳۸؍۳۳۲ ؛ وجامع الترمذي، أبواب الفتن، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر، رقم الحدیث ۲۲۵۹، ۶؍۳۲۵۔۳۲۶۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ حافظ منذری نے ان سے موافقت کی ہے اور شیخ البانی نے اسے [حسن لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۶؍۳۲۶؛ والترغیب والترھیب ۳؍۲۲۷؛ وصحیح الترغیب والترھیب ۲؍۵۷۶)۔