کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 156
انہوں نے بیان کیا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے[1] بددعا کرتے ہو ئے کہا: [اَللّٰہُمَّ اکْفِنَاہُ بِمَا شِئْتَ] [2] تو اس کے گھوڑے کے قدم پیٹ تک ٹھوس زمین میں دھنس گئے اور اس نے اس [یعنی گھو ڑے]سے چھلانگ لگا دی اور کہنے لگا: ’’اے محمد ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔! یقینا میں نے جان لیا ہے ، کہ بلاشبہ یہ آپ کا کام ہے، سو اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجئے ، کہ میں جس [عذاب]میں ہوں، وہ مجھے اس سے نجات دے دیں۔‘‘[3] ۱۷:دشمن کا رُخ پھیر دینے والی دُعا: امام احمد اور امام بزار نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’ (غزوۂ) خندق کے دن ہم نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔! کیاکوئی چیز ہے ، (کہ) ہم کہیں؟ یقینا دل گلوں تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہاں، [اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَّوْعَاتِنَا] [4]
[1] یعنی سراقہ بن مالک بن جُعَثم ، جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تعاقب کرتے کرتے، ان کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔ [2] ترجمہ: ’’اے اللہ! ہمیں اس سے ، جس چیز کے ساتھ آپ چاہیں، کفایت فرمایئے۔‘‘ [3] المسند ، جزء من رقم الحدیث ۳ باختصار، ۱؍۱۵۵۔ شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو حسن] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے [ مسلم کی شرط] پر قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۱؍۱۵۴ (ط: مصر)؛ و ہامش المسند ۱؍۱۸۴(ط۔الرسالۃ)۔ [4] ترجمہ: اے اللہ! ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرمایئے اور ہمارے اندیشوں کو امن (سے بدل) دیجئے۔