کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 153
ج: امام ترمذی اورامام حاکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ انہوں نے بیان کیا:’’ فاطمہ رضی اللہ عنہا خادم طلب کرنے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا:’’جو چیز تم مانگنے آئی ہو ،وہ تمہیں زیادہ پسند ہے یا اس سے بہتر چیز؟‘‘
انہوں[حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ] نے بیان کیا :’’میرا گمان ہے، کہ انہوں نے [یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت] علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔‘‘[1]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم کہو:
[اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ! وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ! رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَيْئٍ! مُنْزِلَ التَّورَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْقُرْآنِ ! فَالِقَ الْحَبِّ وَاَلنَّوٰی! أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَيْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ، أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَيْئٌ، اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ۔[2]][3]
[1] سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ’’آپ کہیے:’’نہیں، بلکہ وہ [زیادہ پسند ہے]، جو اس سے بہتر ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ ، أبواب الدعاء ، باب دعاء رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ، جزء من رقم الحدیث ۳۸۷۱،۲؍۳۴۲)۔
[2] [ترجمہ: ’’اے اللہ ! آسمانوں کے رب! اور عرش عظیم کے رب! [اے] ہمارے رب اور ہر چیز کے رب! [اے] تورات ، انجیل اور قرآن کے نازل فرمانے والے ! [اے] دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے ! میں ہر چیز کے شر سے آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں ،کہ آپ اس کی پیشانی پکڑنے والے ہیں۔ آپ اوّل ہیں، کہ آپ سے پہلے کوئی چیز نہیں، آپ آخر ہیں ،کہ آپ کے بعد کوئی چیز نہیں، آپ ظاہر ہیں ،کہ کوئی چیز آپ سے اوپر نہیں، اور آپ باطن ہیں، کہ کوئی چیز آپ سے زیادہ پوشیدہ نہیں۔ ہماری طرف سے قرض ادا فرما دیجیے اور ہمیں فقر سے غنی فرما دیجیے۔‘‘]
[3] جامع الترمذي ،أبواب الدعوات عن رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ، باب ، رقم الحدیث ۳۷۱۲، ۹؍ ۳۱۸؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ،۳؍۱۵۷۔ الفاظِ حدیث المستدرک کے ہیں۔ امام حاکم نے اسے [بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے ۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۳/۱۵۷؛ والتلخیص ۳/۱۵۷؛ وصحیح سنن الترمذي ۳؍۱۶۴)۔